حرفِ آغاز

حضرت مولانا زبیرالحسن کاندھلویؒ

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

اٹھ گیا ناوِک فگن، مارے گا دل پہ تیر کون

          آہ کہ ۱۶/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۸/مارچ ۲۰۱۴/ یوم سہ شنبہ کو گیارہ بجے دن میں جماعتِ تبلیغی کے موجودہ اکابر میں صفِ اول کے داعی ومبلغ اور عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین حضرت مولانا زبیرالحسن کاندھلوی کا ”رام منوہر لوہیا ہسپتال“ دلی میں (جہاں وہ زیرِ علاج تھے) انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون، رَحِمَہُ اللہُ تعالیٰ رَحْمَةَ عبادِہ المحسنینَ المُخْلصین

          کسی با فیض وبابرکت ہستی کا اس دنیا سے کوچ کرجانا تاریخِ عالم کا کوئی نادر واقعہ نہیں ہے، ربِ کائنات کے وہ بے شمار منتخب وبرگزیدہ بندے جنھیں ہم عقیدت ومحبت اور عظمت واحترام کے جذبہٴ بے پایاں سے ”علیہ الصلاةُ والسلام، رضی اللہ عنہ، قُدِّسَ سِرُّہ“ وغیرہ دعائیہ کلمات کے ساتھ یاد کیا کرتے ہیں، آخر ایک وقت اور ایک زمانہ میں یہ ساری بزرگ ہستیاں اسی دنیا میں تھیں، اور خالقِ ہردوجہاں کے مقررہ قانون کے مطابق اپنی اپنی مدتِ حیات پوری کرکے عالمِ آخرت کو سدھارگئیں۔

          پھر بھی دین کی غربت اور امت کی زبوں حالی کے دور میں اللہ تعالیٰ کے کسی صالح ومصلح بندے اور دین کے ممتاز خادم کا کارگاہِ حیات سے رخصت ہوجانا، بلاشبہ باعثِ افسوس وحسرت ہوتا ہے؛ بالخصوص جب صورتِ حال یہ ہے کہ جانے والے کے چلے جانے کے بعد اس کی جگہ پُرہوتی ہوئی دیکھی نہیں جاتی اور یہ احساس قوی سے قوی تر ہوتا جارہا ہے کہ خدائے عالم الغیب کے آخری بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ”یَذْھَبُ الصَّالِحُونَ الأوَّلُ فَالأوّلُ وَتَبْقٰی حُفالةٌ کَحُفالةِ الشعیر لا یُبالِیْھُم اللہ“ (رواہ البخاری) کی طرف دنیا دھیرے دھیرے قدم بڑھارہی ہے۔

          حضرت مولانا زبیرالحسن رحمہ اللہ اسی جماعتِ خیر وصلاح کی یادگار تھے، وہ ہمارے ملک کے ایک ایسے علمی ودینی خانوادہ کے رکن رکین تھے، جس کی علمی دینی اور دعوتی سرگرمیوں کا دائرہٴ عمل ایشیا ہی نہیں؛ بلکہ پورا افریقہ، یورپ اور امریکہ کو محیط ہے، خود مولانا مرحوم نے اپنی زندگی اسلامی علوم کی تعلیم واشاعت اور دینی احکام کی تبلیغ ودعوت کے لیے وقف کررکھی تھی، جس کے لیے وہ دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہنچے اور بندگانِ خدا کا ان کے خالق ومالک سے رابطہ استوار کرنے کی سعیِ مشکور کی۔

          مولانا مرحوم کی شخصیت بڑی پرکشش تھی، وجاہت ونجابت ان کے چہرے بشرے سے اس طرح نمایاں تھی، جیسے چودھویں کے چاند سے لطیف وراحت خیز چاندنی! اللہ تعالیٰ نے خاندانی شرافت کے ساتھ علم وعمل کی دولت سے بھی سرفراز فرمایا تھا، جماعت کے مدرسہ کاشف العلوم نظام الدین دلی کے شیخ الحدیث، جماعتِ تبلیغی کی امارتی شوریٰ کے رکنِ رکین بھی تھے، ریحانة العصر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قُدِّسَ سِرُّہ کی جانب سے شرفِ خلافت سے بھی ہم کنار تھے اور دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں نیازمندوں کی محبت وعقیدت کے ایسے محور ومرکز تھے کہ پروانہ کی طرح ان پر نچھاور ہونے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، دل ودماغ میں احساسِ بڑائی پیدا کرنے والے ان سارے اسباب کے مجمع البحار اور سنگم ہونے کے باوجود تواضع وانکساری کے مکمل پیکر تھے، مسکنت اور خاکساری ان کی ادا، ادا سے جھلکتی تھی، وہ اپنے متعلقین اور عقیدت مندوں ہی سے نہیں؛ بلکہ اجنبی اور بیگانوں سے بھی محبت ویگانگت کے ساتھ پیش آتے تھے، مسلمانوں ہی سے نہیں؛ بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی کا ایسا والہانہ معاملہ کرتے تھے کہ وہ ان کا ہمیشہ کے لیے گرویدہ ہوجاتا تھا، غرضیکہ ان کی مجلسِ ملاقات سے جو بھی اٹھتا اس کی زبانِ حال پر یہی ہوتا تھا۔

بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی

وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں

          بندہ چونکہ طبعی طور پر سفر سے گریز کرتا ہے، اس دلی سے قریب رہتے ہوئے بھی وہاں جانے کی نوبت کم ہی آتی ہے، بس جمعیة علماء ہند کی مجلسِ عاملہ میں شرکت کے لیے سال میں دو چار مرتبہ جانا ہوتا ہے، اور یہ سفر بھی بالعموم جمعیة دفتر تک ہی محدود رہتا ہے، کہیں اور جانے کا اتفاق نہیں ہوتا؛ اس لیے مولانا مرحوم سے ملنے کا موقع کم ہی میسر آیا، جہاں تک یاد آتا ہے، حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب مدظلہ کے دولت کدہ پر مختلف اوقات میں دو تین بار شرفِ نیاز حاصل ہوا اور بس، ان نادر ملاقاتوں میں بھی وہ ایسے تپاک اور گرم جوشی سے ملے، گویا عرصہ کی شناسائی ہو، پھر مولانا کا یہ معاملہ کسی تکلف وتصنع پر مبنی نہیں ہوتا تھا؛ بلکہ دین کے ایک داعی ہونے کی حیثیت سے انھوں نے اپنی زندگی کو اسی سانچے میں ڈھال لیا تھا، اور یہی اسلامی فاضلانہ اخلاق ان کا مزاج اور طبیعت بن گئے تھے۔

          مولانا مرحوم کا جسم بہت بڑھ گیا تھا اور اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے ہی سے نہیں؛ بلکہ روز مرہ کے بہت سارے امور کے انجام دینے سے معذور تھے، اس کے باوجود دین کی راہ میں طول طویل اسفار کی صعوبتوں کو پوری بشاشت سے برداشت کرتے تھے۔ امتِ مسلمہ کے بارے میں ان کی دردمندی ودلسوزی کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا جب وہ ربِ کریم کے آگے دست بدعا ہوتے تھے، خود تڑپتے تھے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے تھے، امت کی صلاح وفلاح کے لیے خود بھی روتے تھے، اوروں کو بھی رلاتے تھے، اس موقع پر ان کی محویت کا یہ عالم ہوتا کہ وقت دبے پاؤں دور بہت دور چلا جاتا اور انھیں ادنیٰ احساس تک نہ ہوتا، تقویٰ وطہارت اور اخلاص وللہیت نے ان کی دعاؤں میں اس قدر اثر بھردیا تھا کہ پتھر جیسے سخت دل بھی پسیجے بغیر نہیں رہتے تھے، کَثَّرَ اللّٰہُ تعالی امثالَہم۔

مختصر سوانح حیات:

          جماعتِ تبلیغی کے امیرِ ثالت حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمہ اللہ، مولانا مرحوم کے والد بزرگوار اور حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نوراللہ مرقدہ آپ کے حقیقی نانا تھے۔

تاریخ پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت: ۱۰/جمادی الثانی ۱۳۶۹ھ مطابق ۳۰/مارچ ۱۹۵۰/ کو حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے بابرکت مکان میں ولادت ہوئی، عمر کے پانچ سال پورے ہوجانے پر مورخہ ۵/ربیع الاوّل ۱۳۷۴ھ یکم جنوری ۱۹۵۵/ کو حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ نے اپنی خانقاہ رائے پور میں آپ کی ”بسم اللہ“ کرائی، حفظِ قرآن مجید کے بعد فارسی وابتدائی عربی کی تعلیم ہدایة النحو، وکافیہ وغیرہ تک گھر میں پائی، بعد ازاں شوال ۱۳۸۵ھ فروری ۱۹۶۶/ میں مظاہر علوم سہارنپور میں باضابطہ داخل ہوئے اور شرحِ جامی اور شرحِ وقایہ سے یہاں تحصیل کا آغاز کیا، پھر سال بہ سال آگے بڑھتے ہوئے شوال ۱۳۸۹ھ میں دورئہ حدیث کی جماعت میں داخل ہوئے اور صحاحِ ستہ کی تکمیل کرکے شعبان ۱۳۹۰ھ فاتحہٴ فراغ پڑھی، صحیح بخاری، وصحیح مسلم کا درس مولانا محمد یونس جونپوری شیخ الحدیث مظاہر علوم کے یہاں تکمیل کو پہنچا، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی مولانا محمدعاقل صاحب، ترمذی مولانا مفتی مظفرحسین صاحب اور طحاوی حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم مدرسہ سے پڑھیں۔

سلوک: تعلیم سے فارغ ہوجانے کے بعد اپنے نانا جان ریحانةُ العصر حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت سلوک کی، اور انھیں کی زیرہدایت ذکر وشغل میں مصروف ہوئے اور تقریباً آٹھ برس مشغولِ ریاضت رہ کر ربیع الاوّل ۱۳۹۸ھ فروری ۱۹۷۸/ یومِ جمعہ کو اجازت وخلافت سے ہم کنار ہوئے، یہ اجازت وخلافت حضرت شیخ قدس سرہ نے انھیں مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی علی صاحبہا الصلاة والسلام میں عطا فرمائی تھی، بعد میں والدِ ماجد حضرت مولانا انعام الحسن رحمہ اللہ کی طرف سے بھی انھیں خلافت واجازت حاصل تھی، تعلیم وتربیت کے بعد تبلیغی مرکز نظام الدین میں رہ کر تعلیم وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، تقریباً بیس سال سے زیادہ بخاری شریف کا درس دیا، اور ملک وبیرونِ ملک کے سیکڑوں تبلیغی اسفار کیے، مرحوم ادھر چند سالوں سے گردہ کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے تھے اور یہی بیماری بظاہر موت کا سبب بنی، بلا ریب مولانا ”کل نفس ذائقة الموت“ کے کلی ضابطہ کے تحت موت کی آغوش میں پہنچ گئے؛ مگر اس سچائی میں بھی کوئی شک وتردد نہیں ہے کہ

ہرگز نمیرد آں کی دلش زندہ شد بہ عشق

 

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء